عجب عالم بے بسی کا تھا نہ کوئی بات سننے والا نہ سمجھنے والا‘ ڈبل کرایہ ادا کیا اور مطلوبہ ایئرپورٹ آئے لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا جہاز جاچکا تھا۔ ہم روتے کانپتے واپس انہی کے گھر آئے‘ ویزہ ٹائم ختم ہونے کے بعد وہاں رہنا قانوناً جرم تھا۔
(مسز غیاث‘ بہاولنگر)
انسانی زندگی تلخ و شیریں حالات و واقعات اور جذبات و احساسات پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے اندر بہت سی یادداشتیں محفوظ ہوتی ہیں لیکن انہیں سپرد قلم کرنے کا خیال دور دور تک نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی جذبوں کی گرفت اسے اظہار کو اکساتی ہے اور وہ قلم پکڑنے کو مجبور ہوجاتا ہے۔
ایسا ہی واقعہ بار بار یاد آتا ہے۔ عمرے کی سعادت کے بعد اٹھارہ مئی کو ہماری واپسی تھی۔ انیس مئی ویزہ کی آخری تاریخ تھی۔ جدہ میں ہمارے قریبی عزیز تھے ان کے اصرار پر سترہ مئی کی شام ان کے گھر آگئے۔ انہوں نے ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنا تھا‘ ایئرپورٹ سے ایک شخص نے تمام معلومات‘ فلائٹ ٹائم اور کس ایئرپورٹ پر جانا تھا آگاہ کیا‘ ہم خوشی خوشی ایئرپورٹ پہنچے۔ لیکن شومیٔ تقدیر یہ وہ ایئرپورٹ نہ تھا۔ ناشناسا لوگ ادھر اُدھر دکھائی دئیے۔
عجب عالم بے بسی کا تھا نہ کوئی بات سننے والا نہ سمجھنے والا‘ ڈبل کرایہ ادا کیا اور مطلوبہ ایئرپورٹ آئے لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا جہاز جاچکا تھا۔ ہم روتے کانپتے واپس انہی کے گھر آئے‘ ویزہ ٹائم ختم ہونے کے بعد وہاں رہنا قانوناً جرم تھا‘ بہت کوشش کی لیکن ہمیں ٹکٹ تین دن بعد ملنے تھے۔ وہ رات کانٹوں پر گزری۔ ایک پل چین نہیں آرہا تھا۔ یونہی اٹھتے بیٹھتے اخترشماری کرتے توبہ استغفار پڑھتے رہے۔ صبح چار بجے میرا بیٹا اپنے پھوپھا کے ہمراہ ایئرپورٹ گیا کہ شاید کوئی واقف مہربان ہو اور کام بن جائے۔
معلوم ہوا کہ پاکستان فلائٹ جارہی ہے اگر کوئی مسافر غیرحاضر ہوئے تو ہمارے لیے چانس ہے‘ سات بجے فلائٹ تھی‘ چھ بجے ہمیں اطلاع ہوئی ایک گھنٹے کا قلیل وقت تھا۔ ذہنی دباؤ الگ‘ بھاگم بھاگ ایئرپورٹ پہنچے بورڈنگ تو ہوگئی‘ مختلف ممالک کے لوگ قطار میں کھڑے تھے‘ رش میں آگے جانا بے حد محال تھا۔ اس فلائٹ کے مسافر ایئربس کی طرف جارہے تھے۔ صرف چھ مسافر ویٹنگ روم میں باقی تھے‘ جنہوں نے اس فلائٹ میں پاکستان آنا تھا۔ قطار میں کھڑے ہمارا دل ڈوبا جارہا تھا‘ اتنے میں اطلاع ملی کہ کمپیوٹر سسٹم جام ہوگیا ہے ہم بھی اندر جاچکے تھے جہاں کاغذات سٹمپ ہونا تھے‘ آدھ گھنٹہ کی کوشش کے بعد سسٹم بحال ہوا اور شان خداوندی دیکھیں سب سے پہلے ہمارے کاغذات کلیئر ہوئے اور جو مسافر پہلے سے موجود تھے وہ بعد میں فارغ ہوئے‘ وہ رب کتنا مہربان ہے اور کتنی کرم نوازیاں کرتا ہے۔ ہماری گستاخیوں اور حکم عدولیوں پر بھی وہ قادر مُطلق مشکل گھڑی میں کام آتا ہے۔ غیبی امداد کرتا ہے‘ بے عمل اور بے وصف لوگوں کی عیب پوشی کرتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں